Thursday 19 July 2012

تم سچے برحق سائیں

تم سچے برحق سائیں

تم سچے برحق سائیں
سر سے لے کر پیروں تک
دُنیا شک ہی شک سائیں
تم سچے برحق سائیں
اک بہتی ریت کی دہشت ہے
اور ریزہ ریزہ خواب مرے
بس ایک مُسلسل حیرت ہے
کیا ساحل، کیا گرداب مرے
اس بہتی ریت کے دریا پار
کیا جانے ہیں کیا کیا اسرار
تم آقا چاروں طرفوں کے
اور مرے چار طرف دیوار
اس دھرتی سے افلاک تلک
تم داتا، تم ہو پالن ہار
میں گلیوں کا ککھ سائیں
تم سچے برحق سائیں
سر سے لے کر پیروں تک
دُنیا شک ہی شک سائیں
کچھ بھید ازل سے پہلے کا
کچھ راز ابد کی آنکھوں کے
کچھ حصہ ہجر سراپے کا
کچھ بھیگے موسم خوابوں کے
کوئی چارہ مری پستی کا
کوئی دارُو آنکھ ترستی کا
بس ایک نظر سے جُڑ جائے
آئینہ مری ہستی کا
ازلوں سے راہیں تکتا ہے
اک موسم دل کی بستی کا
اس کی اور بھی تَک سائیں
تم سچے برحق سائیں
سر سے لے کر پیروں تک
دُنیا شک ہی شک سائیں
تم سچے برحق سائیں
میں ایک بھکاری لفظوں کا
یہ کاغذ ہیں کشکول مرے
ہیں ملبہ زخمی خوابوں کا
یہ رستہ بھٹکے بول مرے
یہ ارض و سما کی پہنائی
یہ مری ادھوری بینائی
کیا دیکھوں ، کیسے دیکھ سکوں
یہ ہجر کی جلوہ آرائی
یہ رستہ کالے کوسوں کا
اور اک مُسلسل تنہائی
مانگوں اک جھلک سائیں
تم سچے برحق سائیں
سر سے لے کر پیروں تک
دُنیا شک ہی شک سائیں
تم سچے برحق سائیں

امجد اسلام امجد

No comments:

Post a Comment