Friday 20 July 2012

کچھ فیصلہ تو ہو کہ کدھر جانا چاہئے

کچھ فیصلہ تو ہو کہ کِدھر جانا چاہیے
پانی کو اب تو سر سے گزر جانا چاہیے
نشتر بدست شہر سے چارہ گری کی لو
اے زخمِ بے کسی تجھے بھر جانا چاہیے
ہر بار ایڑیوں پہ گِرا ہے میرا لہو
مقتل میں اب بہ طرزِ دِگر جانا چاہیے
کیا چل سکیں گے جن کا فقط مسئلہ یہ ہے
جانے سے پہلے رختِ سفر جانا چاہیے
سارا جوار بھاٹا میرے دل میں ہے مگر
اِلزام یہ بھی چاند کے سر جانا چاہیے
جب بھی گئے عذابِ در و بام تھا وہی
آخر کو کِتنی دیر سے گھر جانا چاہیے
تہمت لگا کے ماں پہ جو دشمن سے داد لے
ایسے سخن فروش کو مر جانا چاہیے

 پروین شاکر

No comments:

Post a Comment