Sunday 22 July 2012

ہر ذرہ ہے اک وسعت صحرا میرے آگے

ہر ذرّہ ہے اک وسعت صحرا میرے آگے
ہر قطرہ ہے، اِک موجۂ دریا میرے آگے
اک نعرہ لگا دوں کبھی مستی میں سرِ دار
کعبہ نہ بنے کیسے کلیسا میرے آگے
وہ خاک نشِیں ہوں کہ میری زد میں جہاں ہے
بل کھاتی ہے کیا موجِ ثریا میرے آگے
میں ہست میں ہوں نِیست کا پیغام مجسم
انگشت بدنداں ہے مسیحا میرے آگے
میں جوش میں آیا تو یہی قلزمِ ہستی
یوں سِمٹا کہ جیسے کوئی قطرہ میرے آگے
لے آیا ہوں افلاک سے مِلت کا مقدّر
کیا کیجئے مقدور کا شِکوہ میرے آگے
استادِ زماںؐ، فخرِ بیاںؐ کی ہے توجہ
غالب کی زمیں کب ہوئی عنقا میرے آگے
واصفؔ ہے میرا نام، مگر راز ہوں گہرا
ذرے نے جگر چیر کے رکھا میرے آگے

واصف علی واصف​

No comments:

Post a Comment