Wednesday 11 July 2012

گلابوں کے نشیمن سے مرے محبوب کے سر تک

گلابوں کے نشیمن سے مِرے محبوب کے سر تک
سفر لمبا تھا خوشبو کا، مگر آ ہی گئی گھر تک
وفا کی سلطنت، اقلیمِ وعدہ، سرزمینِ دل
نظر کی زد میں ہے خوابوں سے تعبیروں کے کشور تک
کہیں بھی سرنگوں ہوتا نہیں اخلاص کا پرچم
جدائی کے جزیرے سے محبت کے سمندر تک
محبت، اے محبت! ایک جذبے کی مسافت ہے
مِرے آوارہ سجدے سے تِری چوکھٹ کے پتھر تک
اداسی مؤقلم ہے، نقش میں رنگِ ملال ابھرا
تمناؤں کے پس منظر سے دل کے پیش منظر تک

غلام محمد قاصر

No comments:

Post a Comment