Tuesday 10 July 2012

جب بہار آئی تو صحرا کی طرف چل نکلا

جب بہار آئی تو صحرا کی طرف چل نکلا
صحنِ گُل چھوڑ گیا، دل مِرا پاگل نکلا
جب اُسے ڈھونڈنے نکلے تو نشاں تک نہ ملا 
دل میں موجود رہا، آنکھ سے اوجھل نکلا
اِک ملاقات تھی جو دل کو سدا یاد رہی
ہم جسے عمر سمجھتے تھے، وہ اِک پل نکلا
وہ، جو افسانۂ غم سُن کے ہنسا کرتے تھے
اتنے روئے ہیں کے سب آنکھ کا کاجل نکلا
ہم سکون ڈھونڈنے نکلے تھے پریشان رہے
شہر تو شہر ہے، جنگل بھی نہ جنگل نکلا
کون ایوبؔ! پریشان نہیں تاریکی میں
چاند افلاک پہ، دل سینے میں بے کل نکلا

ایوب رومانی


No comments:

Post a Comment