Sunday 22 July 2012

کل تک جو کر رہے تھے بڑے حوصلے کی بات

کل تک جو کر رہے تھے بڑے حوصلے کی بات
ہے ان کے لب پہ آج، کٹھن مرحلے کی بات
جس کارواں کے سامنے تارے نِگوں رہے
صحرا میں اُڑ گئی ہے اسی قافلے کی بات
آخر، سرِ غرور نے سجدہ کیا اسے
یوں مختصر ہوئی ہے بڑے فاصلے کی بات
راہِ طلب میں ہم سے کوئی بھول ہو گئی
کیوں کر رہے ہیں آپ ہمارے صِلے کی بات
ہم نے تو عرض کر ہی دیا حرفِ مُدعا
اب آپ ہی کریں گے کسی فیصلے کی بات
ان کی تلاش اصل میں اپنی تلاش ہے
کس سلسلے سے جا ملی کس سلسلے کی بات
واصفؔ! دیارِ عشق میں لازم ہے خامشی
مر کر بھی لب پہ آئے نہ ہرگز گِلے کی بات

واصف علی واصف​

No comments:

Post a Comment