Saturday 28 July 2012

شعلہ لب ہو کوئی یا غنچہ دہن تم سا ہو

شعلۂ لب ہو کوئی یا غنچہ دہن، تم سا ہو
کوئی بھی بات کرے ہم سے سخن تم سا ہو
اوڑھ کر جیسے فضا چادرِ ماہتاب چلی
کوئی ملبوس ہے ایسا، جو بدن تم سا ہو
کس کی قسمت ہے کہ تم سی کوئی آنکھیں پائے
کس میں وحشت ہے کہ آہوئے ختن تم سا ہو
ایسے بے باک ہوۓ شہر کے دلدار کہ بس
ہم نے چاہا تھا کہ بے ساختہ پن تم سا ہو
عمر بھر اپنی ہی مٹی سے کیا خود کو نہال
کوئی آباد، نہ بربادِ وطن تم سا ہو

لیاقت علی عاصم

No comments:

Post a Comment