Thursday 19 July 2012

دل بے خبر ذرا حوصلہ

دلِ بے خبر ذرا حوصلہ

کوئی ایسا گھر بھی ہے شہر میں جہاں ہر مکین ہو مطمئِن
کوئی ایسا دن بھی کہیں پہ ہے جسے خوفِ آمدِ شب نہیں
یہ جو گرد بادِ زمان ہے، یہ ازل سے ہے، کوئی اب نہیں
دلِ بے خبر ذرا حوصلہ
یہ جو خار ہیں تیرے پاؤں میں، یہ جو زخم ہیں تیرے ہاتھ میں
یہ جو خواب پھرتے ہیں دربدر، یہ جو بات اُلجھی ہے بات میں
یہ جو لوگ بیٹھے ہیں جابجا، کسی ان بنے سے دیار میں
سبھی ایک جیسے ہیں سرگراں، غمِ زندگی کے فشار میں
یہ سراب یوں ہی صدا سے ہیں، اسی ریگزارِ حیات میں
یہ جو رات ہے تیرے چار سُو، نہیں صرف تیری ہی گھات میں
دلِ بے خبر ذرا حوصلہ
تیرے سامنے وہ کتاب ہے جو بکھر گئی ہو ورق ورق
ہمیں اپنے حصے کے وقت میں، اسے جوڑنا ہے سبق سبق
ہیں عبارتیں ذرا مختلف، مگر ایک اصلِ سوال ہے
جو سمجھ سکو تو یہ زندگی کسی ہفت خواں کی مثال ہے
دلِ بے خبر ذرا حوصلہ، نہیں مستقل کوئی مرحلہ
کیا عجب کے کل کو یقین بنے، یہ جو مُضطرب سا خیال ہے
کسی روشنی میں ہو منقلب، کسی سرخُوشی کا نقیب ہو
یہ جو شب نما سی ہے بے دلی، یہ جو زرد رو سا ملال ہے
دلِ بے خبر ذرا حوصلہ
دلِ بے خبر ذرا حوصلہ 

امجد اسلام امجد

No comments:

Post a Comment