Thursday 26 July 2012

تیری نظر کا معجزہ کرب کو یوں بدل گیا

تیری نظر کا معجزہ، کرب کو یوں بدل گیا
قطرۂ اشک آنکھ سے بن کے گُہر اُچھل گیا
میں تو خزاں کے بعد بھی برگ سمیٹتا رہا
وہ تو عجیب شخص تھا، رنگ کئی بدل گیا
دشمنِ جاں کے قتل میں میرا ہُنر تو کچھ نہ تھا
تیر ہی بس کمان سے، اُس کی طرف نِکل گیا
نیلے فلک کے تخت سے پہلو میں تیرے گر پڑے
تیرا طلسمِ چشم یوں شمس و قمر پہ چل گیا
خواب میں تجھکو دیکھ کر جاگا تو میری آنکھ میں
تیرے جمال کے سبب، حُسنِ جہاں بدل گیا
سینۂ کوہسار میں صدیوں کا دُکھ نہ چھپ سکا
تیشۂ کوہکن چلا، خونِ جگر اُچھل گیا

عارف فرہاد

No comments:

Post a Comment