Saturday 14 July 2012

اک گھرانہ پھول والا ایک گھر خوشبو کا ہے

اِک گھرانہ پھول والا، ایک گھر خوشبو کا ہے
بس اسی کے فیض سے، سارا نگر خوشبو کا ہے
سبز گنبد چومتے رہتے ہیں، جتنے بھی پرند
ان کے لب خوشبو کے ہیں، اِک ایک پَر خوشبو کا ہے
مدتیں گزریں کہ گزرا تھا، کوئی مشکیں بدن
آج تک ان راستوں ہی میں، گزر خوشبو کا ہے
باغِ جنّت کا چراغاں کیا، کہ شہرِ شوق میں
ہر علاقہ نور کا ہے، ہر شجر خوشبو کا ہے
یوں ہی اِٹھلا کے نہیں چلتی، وہاں بادِ نسیم
ایک اِک جھونکا ہَوا کا، نامہ بر خوشبو کا ہے
ہر طرف پھولوں کا موسم ہے، سرِ راہِ خیال
جیسے ان کو سوچتے رہنا، سفر خوشبو کا ہے

منظور ہاشمی

No comments:

Post a Comment