Friday 13 July 2012

یہ کون آتا ہے تنہائیوں میں جام لئے

یہ کون آتا ہے تنہائیوں میں جام لیے
دلوں میں چاندنی راتوں کا اہتمام لیے
چٹک رہی ہے کسی یاد کی کلی دل میں
نظر میں رقصِ بہاراں کی صبح شام لیے
مہک مہک کے جگاتی رہی نسیمِ سحر
لبوں پہ یارِ مسیحا نفس کا نام لیے
کسی خیال کی خوشبو کسی بدن کی مہک
درِ قفس پہ کھڑی ہے صبا پیام لیے
بجا رہا تھا کہیں دور کوئی شہنائی
اٹھا ہوں آنکھوں میں اِک خوابِ ناتمام لیے

مخدوم محی الدین

No comments:

Post a Comment