Friday 6 July 2012

ہم جو گاتے چلے گئے ہوں گے

ہم جو گاتے چلے گئے ہوں گے
زخم کھاتے چلے گئے ہوں گے
تھا ستم، بار بار کا ملنا
لوگ بھاتے چلے گئے ہوں گے
دور تک باغ اُسکی یادوں کے
لہلہاتے چلے گئے ہوں گے
دشتِ آشفتگی میں خاک بسر
خاک اُڑاتے چلے گئے ہوں گے
فکر اپنے شرابیوں کی نہ کر
لڑکھڑاتے چلے گئے ہوں گے
ہم خود آزار تھے، سو لوگوں کو
آزماتے چلے گئے ہوں گے
ہم جو دُنیا سے تنگ آئے ہیں
تنگ آتے چلے گئے ہوں گے

جون ایلیا

No comments:

Post a Comment