Wednesday 11 July 2012

وہ گلاب وہ غنچے وہ سمن نہیں ملتے

وہ گُلاب، وہ غُنچے، وہ سمن نہیں مِلتے
جِنکے پُھول خُوشبو دیں، وہ چمن نہیں مِلتے
اجنبی دیاروں میں، ہموطن نہیں مِلتے
ہموطن مِلیں بھی تو ہم سخن نہیں مِلتے
مطلبی فضاؤں کا طور ہی نرالا ہے
تن سے تن تو مِلتے ہیں، من سے من نہیں مِلتے
عاشقانِ شیریں ہیں سینکڑوں زمانے میں
وقتِ آزمائش پر کوہکن نہیں مِلتے
رہبرانِ ملّت کا حال سب پہ روشن ہے
بدچلن تو مِلتے ہیں، خوش چلن نہیں مِلتے
حاکموں کی حِکمت سے اب یہ وقت آیا ہے
دیس کے مکینوں کو پیرَہن نہیں مِلتے
سب نے مِل کے لُوٹا ہے کارواں کو منزل پر
جُھوٹ ہے کہ منزل پر راہزن نہیں مِلتے
اتفاق سے قاضیؔ علم و فن کی محفل میں
اہلِ علم کہتے ہیں، اہلِ فن نہیں مِلتے

منظور قاضی

No comments:

Post a Comment