Thursday 12 July 2012

تم گھوم آئے بستی بستی کیا دیکھا ہے کوئی ہم سا بھی

تُم گھوم آئے بستی بستی، کیا دیکھا ہے کوئی ہم سا بھی
سُن آئے ہو تم نظمیں سب کی کیا لہجہ ہے کوئی ہم سا بھی
اس بے خوفی سے حالِ دل، کیا لکھتا ہے کوئی ہم سا بھی
یُوں شعر بہت ہیں جانِ صدفؔ کیا مصرع ہے کوئی ہم سا بھی
تُم چاند سے مُکھڑے دیکھ چکے، پُھولوں سے مہکتے آنچل بھی  
خوابوں کے پری خانے میں کہو، کیا چہرہ ہے کوئی ہم سا بھی
کیا اب بھی تھکے ہارے لمحے زُلفوں کے سائے ڈھونڈتے ہیں
تنہائی کے کالے جنگل میں، کیا مہکا ہے کوئی ہم سا بھی
ہم نے تو صبر کے سینے پہ برسوں تیرِ ملامت جھیلے تھے
احساس کے اندھے صحرا میں، کیا دریا ہے کوئی ہم سا بھی
آئے تو بہت تھے وعدے لے کر، اپنی وفا کی رم جھم کے
اب کتنے ہی ساون بِیت گئے، کیا برسا ہے کوئی ہم سا بھی

صدف مرزا

No comments:

Post a Comment