Wednesday 18 July 2012

مستقبل

مستقبل

تیرے لیے میں کیا کیا صدمے سہتا ہوں
سنگینوں کے راج میں بھی سچ کہتا ہوں
میری راہ میں مصلحتوں کے پھُول بھی ہیں
تیری خاطر کانٹے چُنتا رہتا ہوں
تُو آئے گا اسی آس پر جھُوم رہا ہے دل

دیکھ اے مستقبل

اِک اِک کر کے سارے ساتھی چھوڑ گئے
مجھ سے میرے رہبر بھی منہ موڑ گئے
سوچتا ہوں بے کار گِلہ ہے غیروں کا
اپنے ہی جب پیار کا ناتا توڑ گئے
تیرے بھی دُشمن ہیں میرے خوابوں کے قاتل

دیکھ اے مستقبل

جہل کے آگے سر نہ جھُکایا میں نے کبھی
سِفلوں کو اپنا نہ بنایا میں نے کبھی
دولت اور عہدوں کے بل پر جو اینٹھیں
ان لوگوں کو منہ نہ لگایا میں نے کبھی
میں نے چور کہا چوروں کو کھُل کے سرِ محفل

دیکھ اے مستقبل

زُلف کی بات کئے جاتے ہیں
دن کو یُوں رات کئے جاتے ہیں
چند آنسو ہیں انہیں بھی جالبؔ
نذرِ حالات کئے جاتے ہیں

حبیب جالب

No comments:

Post a Comment