Saturday 14 July 2012

عجیب حال یہاں دھوپ کے دیار میں تھا

عجیب حال یہاں دھوپ کے دیار میں تھا
شجر خود اپنے ہی سائے کے اِنتظار میں تھا
نہ جانے کون سے موسم میں پھول کِھلتے ہیں
یہی سوال خزاں میں، یہی بہار میں تھا
ہر ایک سمت سے لشکر ہوا کے آئے تھے
اور اِک چراغ ہی میدانِ کارزار میں تھا
کِھنچی ہوئی تھی مِرے گرد واہموں کی لکِیر
میں قید اپنے بنائے ہوئے حِصار میں تھا
کوئی مکِیں تھا، نہ مہمان آنے والا تھا
تو پھر کِواڑ کھلا کس کے انتظار میں تھا
مِرے شجر پہ مگر پھول پَھل نہیں آئے
وہ یوں تو پَھلتے درختوں ہی کی قطار میں تھا

منظور ہاشمی

No comments:

Post a Comment