Friday 13 July 2012

یار کو میں نے مجھے یار نے سونے نہ دیا

یار کو  میں نے  مجھے یار نے سونے نہ دیا
رات بھر طالع بیدار نے سونے نہ دیا
خاک پر سنگِ درِ یار نے سونے نہ دیا
دھوپ میں سایۂ دیوار نے سونے نہ دیا
شام سے وصل کی شب آنکھ نہ جھپکی تا صبح
شادئ دولتِ دیدار نے سونے نہ دیا
ایک شب بلبلِ بے تاب کے جاگے نہ نصیب
پہلوئے گُل میں کبھی خار نے سونے نہ دیا
جب لگی آنکھ ، کراہا یہ کہ بدخواب کیا
نیند بھر کر دلِ بیمار نے سونے نہ دیا
دردِ سرِ شام سے اس زلف کے سودے میں رہا
صبح تک مجھ کو شبِ تار نے سونے نہ دیا
رات بھر کیں دلِ بے تاب نے باتیں مجھ سے
رنج و محنت کے گرفتار نے سونے نہ دیا
سیلِ گریہ ہے مرا نیند اڑی مردم کی
فکرِ بام و در و دیوار نے سونے نہ دیا
باغِ عالم میں رہیں خواب کی مشتاق آنکھیں
گرمئ آتشِ گلزار نے سونے نہ دیا
سچ ہے غم خوارئ بیمار عذابِ جاں ہے
تا دمِ مرگ دلِ زار نے سونے نہ دیا
تکیہ تک پہلو میں اس گُل نے نہ رکھا آتشؔ
غیر کو ساتھ کبھی یار نے سونے نہ دیا

خواجہ حیدر علی آتش

No comments:

Post a Comment