Monday 16 July 2012

درختوں سے جدا ہوتے ہوئے پتے اگر بولیں

درختوں سے جُدا ہوتے ہُوئے پتّے اگر بولیں
تو جانے کتنے بُھولے بِسرے افسانوں کے در کھولیں
اکٹّھے بیٹھ کر باتیں نہ پھر شاید میسّر ہوں
چلو ان آخری لمحوں میں جی بھر کر ہنسیں بولیں
ہَوا میں بس گئی ہے پھر کسی کے جسم کی خُوشبو
خیالوں کے پرندے پھر کہیں اُڑنے کو پر تولیں
جہاں تھے متفق سب اپنے بیگانے ڈبونے کو
اُسی ساحل پہ آج اپنی اَنا کی سیپیاں رولیں
بھنور نے جن کو لا پھینکا تھا اِس بے رحم ساحل پر
ہوائیں آج پھر اُن کشتیوں کے بادباں کھولیں
نہ کوئی روکنے والا نہ کوئی ٹوکنے والا
اکیلے آئینے کے سامنے ہنس لیں کبھی رو لیں

خالد شریف

No comments:

Post a Comment