Thursday 19 July 2012

کیا کرے میری مسیحائی بھی کرنے والا

کیا کرے میری مسیحائی بھی کرنے والا
زخم ہی یہ مجھے لگتا نہیں بھرنے والا
زندگی سے کسی سمجھوتے کے باوصف اب تک
یاد آتا ہے کوئی مارنے، مرنے والا
اس کو بھی ہم تیرے کوچے میں گزار آئے ہیں
زندگی میں وہ جو لمحہ تھا سنورنے والا
اس کا انداز سخن سب سے جدا تھا شاید
بات لگتی ہوئی، لہجہ وہ مکرنے والا
شام ہونے کو ہے اور آنکھ میں اِک خواب نہیں
کوئی اس گھر میں نہیں روشنی کرنے والا
دسترس میں ہیں عناصر کے ارادے کس کے
سو بکھر کے ہی رہا کوئی بکھرنے والا
اسی امید پہ ہر شام بجھائے ہیں چراغ
ایک تارا☆ ہے سرِ بام ابھرنے والا

پروین شاکر

No comments:

Post a Comment