Wednesday 4 July 2012

کہاں گئے وہ لہجے دل میں پھول کھلانے والے

کہاں گئے وہ لہجے دل میں پھول کھلانے والے 
آنکھیں دیکھ کے خوابوں کی تعبیر بتانے والے 
کدھر گئے وہ رستے جن میں منزل پوشیدہ تھی 
کدھر گئے، وہ ہاتھ مسلسل راہ دکھانے والے 
کہاں گئے وہ لوگ جنہیں ظلمت منظور نہیں تھی 
دیا جلانے کی کوشش میں ‌خود جل جانے والے 
یہ اک خلوت کا رونا ہے جو باتیں کرتی تھی 
یہ کچھ یادوں کے آنسو ہیں دل پگھلانے والے 
کسی تماشے میں رہتے تو کب کے گم ہو جاتے 
اک گوشے میں رہ کر اپنا آپ بچانے والے 
ہمیں کہاں ان ہنگاموں میں تم کھینچے پھرتے ہو 
ہم ہیں اپنی تنہائی میں رنگ جمانے والے 
اس رونق میں شامل سب چہرے ہیں خالی خالی 
تنہا رہنے والے یا تنہا رہ جانے والے 
اپنی لے سے غافل رہ کر ہجر بیاں کرتے ہیں 
آہوں سے نا واقف ہیں یہ شور مچانے والے 
عزمؔ یہ شہر نہیں ہے نفسا نفسی کا صحرا ہے 
یہاں نہ ڈھونڈو کسی مسافر کو ٹھیرانے والے

عزم بہزاد

No comments:

Post a Comment