Monday 30 July 2012

دکاندار؛ یہ تاجران دین ہیں

دُکاندار


یہ تاجرانِ دِین ہیں

خُدا کے گھر مکِین ہیں

ہر اِک خُدا کے گھر پہ ان کو اپنا نام چاہیے

خدا کے نام کے عِوض کُل انتظام چاہیے

ہر ایک چاہتا ہے یہ

مِرا خُدا خرید لو


نہ کر سکے یہ تم اگر

یہ تاجرانِ پیشہ ور

کریں گے تم سے یوں خطاب

انتقام چاہیے

میری کتاب جو کہے

وہ ہی نظام چاہیے


خُدا کے جتنے رُوپ ہیں

اِنہوں نے خُود بنائے ہیں

ہر اِک خُدا میں صاحبو

وہ ساری خُوبیاں ہیں جو

اِنہیں بہت عزیز ہیں


ہر اِک دُکان پر یہاں

نیا خُدا سجا ہوا

ہر اِک دکاندار کی

فقط یہی ہے التجا

مِرا خُدا خرید لو


خُدا کی بھی سُنے کوئی

وہ کہہ رہا ہے بس یہی

کہ صاحبو میں ایک ہوں

مِرے سوا کوئی نہیں

کسی کی بات مت سُنو

مِرا تو کوئی گھر نہیں

دلوں میں بس رہا ہوں میں

ہر ایک پَل

ہر ایک سانس

تم میں جی رہا ہوں میں


تم خُود نہ اپنی جان لو

کہ تم ہی میری جان ہو

جو تم نے جان وار دی

تو میں کہاں بسُوں گا پِھر

مِرا تو کوئی گھر نہیں


جو بیچتے ہیں اپنا گھر

سجا کے نام پر مِرے

یہ نفس کے اسِیر ہیں

یہ لوگ بے ضمیر ہیں


عدیل زیدی 

No comments:

Post a Comment