Monday 2 July 2012

ہم ہیں متاع کوچہ و بازار کی طرح

ہم ہیں متاعِ کوچہ و بازار کی طرح
اٹھتی ہے ہر نگاہ، خریدار کی طرح
اس کوئے تشنگی میں بہت ہے کہ ایک جام
ہاتھ آ گیا ہے دولتِ بیدار کی طرح
وہ تو ہیں کہیں اور مگر دل کے آس پاس
پِھرتی ہے کوئی شے نگاہِ یار کی طرح
سیدھی ہے راہِ شوق پہ یوں ہی کبھی کبھی
خم ہو گئی ہیں گیسوئے دلدار کی طرح
اب جا کے کچھ کھلا ہنرِ ناخنِ جنوں
زخمِ جگر ہوئے لب و رخسار کی طرح
مجروحؔ لکھ رہے ہیں وہ اہلِ وفا کا نام
ہم بھی کھڑے ہوئے ہیں گنہگار کی طرح

مجروح سلطانپوری

No comments:

Post a Comment