Wednesday 11 July 2012

ظُلمتوں کے پروردہ روشنی سے ڈرتے ہیں

ظلمتوں کے پروردہ، روشنی سے ڈرتے ہیں
موت کے یہ سوداگر زندگی سے ڈرتے ہیں
علم ہی وہ طاقت ہے، خوف کی جو دشمن ہے
مصلحت کے خوشہ چیں آگہی سے ڈرتے ہیں
دشمنوں کی نیّت تو ہم پہ خوب ظاہر تھی
پُرفریب لوگوں کی دوستی سے ڈرتے ہیں
جن کو فرض کی خاطر راستی پہ مرنا ہو
کچھ بھی کر گزرنا ہو، کب کسی سے ڈرتے ہیں 
جانے کس گھڑی کُھل کر حرفِ آرزو کہہ دے
ہم کو فکر کانٹوں کی، وہ کلی سے ڈرتے ہیں
پائیں گی توجہ گو جذب و جوش کی باتیں
عقل و ہوش والے تو خامشی سے ڈرتے ہیں
وہ کہ جو سمجھتے ہیں فکر و فن کو بے معنی 
جانے کس لیے اخترؔ شاعری سے ڈرتے ہیں

اختر ضیائی

No comments:

Post a Comment