Sunday 2 December 2012

گلی کوچوں میں ہنگامہ بپا کرنا پڑے گا

گلی کوچوں میں ہنگامہ بپا کرنا پڑے گا
جو دل میں ہے اب اسکا تذکرہ کرنا پڑے گا
نتیجہ کربلا سے مختلف ہو، یا وہی ہو
مدینہ چھوڑنے کا فیصلہ کرنا پڑے گا
وہ کیا منزل، جہاں راستے آگے نکل جائیں
سو اب پھر ایک سفر کا سلسلہ کرنا پڑے گا
لہو دینے لگی ہے چشمِ خوں بستہ، سو اس بار
بھری آنکھوں میں خوابوں کو رہا کرنا پڑے گا
مبادا قصۂ اہلِ جنوں ناگفتہ رہ جائے
نئے مضمون کا لہجہ نیا کرنا پڑے گا
درختوں پہ ثمر آنے سے پہلے آئے تھے پھول
پھلوں کے بعد کیا ہو گا، پتہ کرنا پڑے گا
گنوا بیٹھے تَری خاطر اپنے مِہر و مہتاب
بتا اب اے زمانے! اور کیا کرنا پڑے گا

افتخار عارف

No comments:

Post a Comment