Friday 14 December 2012

اس کا سوچا بھی نہ تھا اب کے جو تنہا گزری

اس کا سوچا بھی نہ تھا اب کے جو تنہا گزری
وہ قیامت ہی غنیمت تھی، جو یکجا گزری
آ، گلے تجھ کو لگا لوں میرے پیارے دُشمن
اک مری بات نہیں، تجھ پہ بھی کیا کیا گزری
میں تو صحرا کی تپش، تشنہ لبی بھول گیا
جو مِرے ہمنفسوں پر لبِ دریا گزری
آج کیا دیکھ کے بھر آئی ہیں تیری آنکھیں
ہم پہ اے دوست! یہ ساعت تو ہمیشہ گزری
میری تنہا سفری، میرا مقدر تھی فرازؔ
ورنہ، اس شہرِ تمنّا سے تو دُنیا گزری

احمد فراز

No comments:

Post a Comment