Monday 10 December 2012

کیا ضروری ہے وہ ہمرنگ نوا بھی ہو جائے

کیا ضروری ہے وہ ہمرنگِ نوا بھی ہو جائے
تم جدھر چاہو، اُدھر کو یہ ہوا بھی ہو جائے
اپنے پر نوچ رہا ہے، تِرا زندانئ دل
اسے ممکن ہے رہائی کی سزا بھی ہو جائے
دل کا دامانِ دریدہ نہیں سلِتا، تو میاں
بھاڑ میں جائے اگر چاک رِدا بھی ہو جائے
تم یقیں ہو، تو گماں ہجر کا کم کیا ہو گا
چشمِ بے خواب اگر خواب نما بھی ہو جائے
کہیں ایسا نہ ہو، اس ڈوبتے خورشید کے ساتھ
تیری آواز میں گم میری صدا بھی ہو جائے
ہم اسیرِ دل و جاں خود سے بھی سہمے ہوئے ہیں
خلقتِ شہر تو ہونے کو خدا بھی ہو جائے
مجلسِ شاہ کے ہیں سارے مصاحب خاموش
ہمنوا دل کا امیر الامرا بھی ہو جائے

خالد علیم

No comments:

Post a Comment