Monday 10 December 2012

کسی کی یاد سے ہم بے نیاز ہو جائیں

کسی کی یاد سے، ہم بے نیاز ہو جائیں
مگر یہ ڈر ہے کہیں رتجگے نہ سو جائیں
فضا اُداس، ستارے اُداس، رات اُداس
یہ زندگی ہے تو ہم بھی اُداس ہو جائیں
وہ سیلِ تند سے بچ کر نکل تو آئے ہیں
یہ خوف ہے نہ کنارے کہیں ڈبو جائیں
اسی لیے تو یہ آنکھیں چھلکنے لگتی ہیں
کہ کشتِ شب میں اُجالوں کے بیج بو جائیں
سکون کا کوئی پَل ہو، کہ نیند آئے ہمیں
نہیں تو درد کے کہرام ہی میں سو جائیں
یہ سوچتے ہیں کہ دشتِ فریب سے چل کر
مسافرانِ جنوں کس دیار کو جائیں؟
یہی ہے کوچۂ جاناں کی رسم اگر خالدؔ
تو آؤ ہم بھی خموشی سے قتل ہو جائیں

خالد علیم

No comments:

Post a Comment