Thursday 13 December 2012

عمر بھر ہم رہے شرابی سے

عمر بھر ہم رہے شرابی سے
دلِ پُرخُوں کی اِک گلابی سے
جی ڈہا جائے ہے سحر سے، آہ
رات گزرے گی کس خرابی سے
کھلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے
اُس کی آنکھوں کی نیم خوابی سے
برقع اُٹھتے ہی چاند سا نکلا
داغ ہوں اس کی بے حجابی سے
کام تھے عشق میں بہت، پر میرؔ
ہم ہی فارغ ہوئے شتابی سے

میر تقی میر

No comments:

Post a Comment