Monday 10 December 2012

سیل گریہ ہے کوئی جو رگ جاں کھینچتا ہے

سیلِ گِریہ ہے کوئی، جو رگِ جاں کھینچتا ہے
رنگ چاہت کے وہ آنکھوں پہ کہاں کھینچتا ہے
دل، کہ ہر بار محبت سے لہو ہوتا ہے
دل کو ہر بار یہی کار زیاں کھینچتا ہے
شاید اب کے بھی مِری آنکھ میں تحریر ہے وہ
لمحۂ یاد، کوئی حرفِ گماں کھینچتا ہے
ایک بے نام سی آہٹ پہ دھڑکتا ہوا دل
عکس تیرا ہی سرِ شیشۂ جاں کھینچتا ہے
جا چکا ہے وہ مِرے حال سے باہر، پھر بھی
اپنی جانب مِرے ماضی کے نشاں کھینچتا ہے
تیر نکلے گا تو سوچیں گے، ابھی تو خالدؔ
وہ فقط میری طرف اپنی کماں کھینچتا ہے

خالد علیم

No comments:

Post a Comment