Thursday 13 December 2012

ہے تاک میں دزدیدہ نظر دیکھیے کیا ہو

ہے تاک میں دُزدیدہ نظر، دیکھئے کیا ہو
پھر دیکھ لیا اس نے ادھر، دیکھئے کیا ہو 
دل جب سے لگایا ہے، کہیں جی نہیں لگتا
کس طرح سے ہوتی ہے بسر، دیکھئے کیا ہو
جو کہنے کی باتیں ہیں وہ سب میں نے کہی ہیں
ان کو مِرے کہنے کا اثر، دیکھئے کیا ہو
اب کے تو بمشکل دلِ مُضطر کو سنبھالا
اندیشہ ہے یہ بارِ دگر، دیکھئے کیا ہو
اندیشۂ فردا میں عبث جان گھلائیں
ہے آج کسے کل کی خبر، دیکھئے کیا ہو
پھر یاس مٹاتی ہے مرے دل کی تمنّا 
بن بن کے بگڑتا ہے یہ گھر، دیکھئے کیا ہو
اے داغؔ انہیں بھی تو ہے دشمن ہی کا دھڑکا
ہے دونوں طرف ایک ہی ڈر، دیکھئے کیا ہو 

داغ دہلوی

No comments:

Post a Comment