Thursday 13 December 2012

بہہ چلا چشم سے یکبار جو اک دریا سا

بہہ چلا چشم سے یک بار جو اِک دریا سا
بیٹھے بیٹھے مجھے کیا جانے یہ لہر آئی کیا
حرفِ مطلب کو مرے سُن کے بصد ناز کہا
"ہم سمجھتے نہیں، بکتا ہے تُو سودائی کیا"
شیخ جی! ہم تو ہیں ناداں، پر اُسے آنے دو
ہم بھی پوچھیں گے ہوئی آپ کی دانائی کیا
کیفیت، محفلِ خوباں کی نہ اُس بِن پوچھو
اُس کو دیکھوں نہ تو پھر دے مجھے دِکھلائی کیا
آج دَم اپنا ٹھہرتا نہیں کیا جانیے آہ
مصلحت لوگوں نے واں بیٹھ کے ٹھہرائی کیا
قطعہ
بر میں وہ شوخ تھا اور سیرِ شبِ ماہ تھی رات
اپنے گھر کیا کہیں، تھی انجمن آرائی کیا
پر گیا صبح سے وہ گھر تو یہی دھڑکا ہے
دیکھیں آج اس کے عوض لے شبِ تنہائی کیا
دیکھنے کا جو کروں اُس کے میں دعویٰ جرأتؔ
مجھ میں جرأت یہ کہاں اور مری بینائی کیا

قلندر بخش جرأت

No comments:

Post a Comment