Friday 14 December 2012

چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے

چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانا یاد ہے 
با ہزاراں اضطراب و صد ہزاراں اشتیاق
تجھ سے وہ پہلے پہل دل کا لگانا یاد ہے 
بار بار اُٹھنا اسی جانب نگاہِ شوق کا 
اور ترا غرفے سے وہ آنکھیں لڑانا یاد ہے
تجھ سے کچھ ملتے ہی وہ بے باک ہو جانا مرا 
اور ترا دانتوں میں وہ انگلی دبانا یاد ہے
کھینچ لینا وہ مرا پردے کا کونا دفعتاً
اور دوپٹے سے ترا وہ منہ چھپانا یاد ہے 
جان کرسونا تجھے وہ قصدِ پا بوسی مرا 
اور ترا ٹھکرا کے سر، وہ مسکرانا یاد ہے
تجھ کو جب تنہا کبھی پانا تو ازراہِ لحاظ
حالِ دل باتوں ہی باتوں میں جتانا یاد ہے
جب سوا میرے تمہارا کوئی دیوانا نہ تھا
سچ کہو کچھ تم کو بھی وہ کارخانا یاد ہے 
غیر کی نظروں سے بچ کر سب کی مرضی کے خلاف
وہ ترا چوری چھپے راتوں کو آنا یاد ہے 
آ گیا گر وصل کی شب بھی کہیں ذکرِ فراق
وہ ترا رو رو کے مجھ کو بھی رُلانا یاد ہے
دوپہر کی دھوپ میں میرے بُلانے کے لیے
وہ ترا کوٹھے پہ ننگے پاؤں آنا یاد ہے
آج تک نظروں میں ہے وہ صحبتِ راز و نیاز
اپنا جانا یاد ہے، تیرا بلانا یاد ہے
میٹھی میٹھی چھیڑ کر باتیں نرالی پیار کی
ذکر دشمن کا وہ باتوں میں اڑانا یاد ہے
دیکھنا مجھ کو جو برگشتہ تو سو سو ناز سے
جب منا لینا تو پھر خود روٹھ جانا یاد ہے
چوری چوری ہم سے تم آ کر ملے تھے جس جگہ
مدتیں گزریں، پر اب تک وہ ٹھکانا یاد ہے
شوق میں مہندی کے وہ بے دست و پا ہونا ترا
اور مرا وہ چھیڑنا، گُدگدانا یاد ہے
باوجودِ ادعائے اتّقا حسرتؔ مجھے
آج تک عہدِ ہوس کا وہ فسانا یاد ہے

حسرت موہانی

No comments:

Post a Comment