Friday 14 December 2012

مقروض کے بگڑے ہوئے حالات کے مانند

 مقروض کے بگڑے ہوئے حالات کے مانند

مجبور کے ہونٹوں پہ سوالات کے مانند

دل کا تیری چاہت میں عجب حال ہوا ہے

سیلاب سے برباد،۔ مکانات کے مانند

میں ان میں بھٹکے ہوئے جگنو کی طرح ہوں

اس شخص کی آنکھیں ہیں کسی رات کے مانند

کس درجہ مقدّس ہے تیرے قرب کی خواہش

معصوم سے بچے کے خیالات کے مانند

دل روز سجاتا ہوں میں دُلہن کی طرح سے

غم روز چلے آتے ہیں بارات کے مانند

اب یہ بھی نہیں یاد کہ کیا نام تھا اس کا

جس شخص کو مانگا تھا مناجات کے مانند

اس شخص سے ملنا مرا ملنا ممکن ہی نہیں ہے

میں پیاس کا صحرا ہوں وہ برسات کے مانند

سمجھاؤ نوید اس کو کہ اب رحم کرے اب

دکھ بانٹتا پھرتا ہے وہ سوغات کے مانند


نوید عباس

No comments:

Post a Comment