Friday 14 December 2012

دائم پڑا ہوا ترے در پر نہیں ہوں میں

دائم پڑا ہُوا تِرے در پر نہیں ہُوں میں
خاک ایسی زندگی پہ کہ پتھر نہیں ہُوں میں
کیوں گردشِ مدام سے گبھرا نہ جائے دل
انسان ہوں، پیالہ و ساغر نہیں ہُوں میں
یارب، زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لیے؟
لوحِ جہاں پہ حرفِ مکرر نہیں ہُوں میں
حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے
آخر گناہ گار ہُوں، کافر نہیں ہُوں میں
کس واسطے عزیز نہیں جانتے مجھے؟
لعل و زمرّد و زر و گوھر نہیں ہُوں میں
رکھتے ہو تم قدم مِری آنکھوں سے کیوں دریغ؟
رتبے میں مہر و ماہ سے کمتر نہیں ہُوں میں
کرتے ہو مجھ کو منع قدم بوس کس لیے؟
کیا آسمان کے بھی برابر نہیں ہُوں میں؟
غالبؔ وظیفہ خوار ہو، دو شاہ کو دعا
وہ دن گئے کہ کہتے تھے نوکر نہیں ہُوں میں

مرزا غالب

No comments:

Post a Comment