Friday 14 December 2012

شغل بہتر ہے عشق بازی کا

شغل بہتر ہے عشق بازی کا
کیا حقیقی و کیا مجازی کا
ہر زباں پر ہے مثلِ شانہ مدام
ذکر، اُس زلف کی درازی کا
ہوش کے ہاتھ میں عناں نہ رہی
جب سوں دیکھا سوار تازی کا
تیں دکھا کر اُس کے مُکھ کی کتاب
علم کھویا ہے دل سوں قاضی کا
آج تیری نگہ نے مسجد میں
ہوش کھویا ہے ہر نمازی کا
گر نہیں راز فقر سوں آگاہ
فخر بے جا ہے فخرِ رازی کا
اے ولیؔ سرو قد کوں دیکھوں گا
وقت آیا ہے سرفرازی کا

ولی دکنی

No comments:

Post a Comment