Friday 14 December 2012

وصل ہو جائے يہيں حشر ميں کيا رکھا ہے

وصل ہو جائے يہيں، حشر ميں کيا رکھا ہے
آج کی بات کو، کيوں کل پہ اٹھا رکھا ہے
محتسب پوچھ نہ تُو شيشے ميں کيا رکھا ہے
پارسائی کا لہو اس ميں بھرا رکھا ہے
کہتے ہيں آئے جوانی تو يہ چوری نکلے
ميرے جوبن کو لڑکپن نے چرا رکھا ہے
دل سی شے گردِ کدورت میں ستم ہے کہ نہیں
ہائے کیا خاک میں ظالم نے ملا رکھا ہے
یاس گھیرے ہوئے ہے مجھ کو ہاں، کچھ کچھ
آسرا تیری لگاوٹ نے لگا رکھا ہے
کہتے ہیں میری بلا جانے ترا دل ہے کہاں
چور ہیں کیا مرے دشمن، کہ چُرا رکھا ہے
خونِ عاشق کو اب دسترس اُس تک مشکل
مہندی نے پہلے ہی سے رنگ جما رکھا ہے
کہتے ہیں ناز کی لذّت کا کچھ شکر نہیں
اور مزہ یہ ہے کہ نام اُس کا جفا رکھا ہے
ہیں تمہارے ہی تو جلوے کے کرشمے سارے
اس کو کیا تکتے ہو، آئینے میں کیا رکھا ہے؟
ناز سے، کشتۂ انداز کو پامال بھی کر
یہ ستم کس کے لیے تُو نے اٹھا رکھا ہے
اس تغافل میں بھی سرگرمِ ستم وہ آنکھيں
آپ تو سوتے ہيں، فتنوں کو جگا رکھا ہے
آدمی زاد ہيں دنيا کے حسيں، ليکن اميرؔ
يار لوگوں نے پری زاد بنا رکھا ہے

امیر مینائی

No comments:

Post a Comment