Monday 17 December 2012

شہر کی دھوپ سے پوچھیں کبھی گاؤں والے

شہر کی دھوپ سے پوچھیں کبھی گاؤں والے
کیا ہوئے لوگ وہ زلفوں کی گھٹاؤں والے
اب کے بستی نظر آتی نہیں اُجڑی گلیاں
آؤ ڈھونڈیں کہیں درویش دعاؤں والے
سنگزاروں میں مرے ساتھ چلے آئے تھے
کتنے سادہ تھے وہ بلّور سے پاؤں والے
ہم نے ذرّوں سے تراشے تری خاطر سورج
اب زمیں پر بھی اتر زرد خلاؤں والے
کیا چراغاں تھا محبت کا کہ بجھتا ہی نہ تھا
کیسے موسم تھے وہ پُر شور ہواؤں والے
تُو کہاں تھا مرے خالق کہ مرے کام آتا
مجھ پہ ہنستے رہے پتھر کے خداؤں والے
ہونٹ سی کر بھی کہاں بات بنی ہے محسنؔ
خامشی کے سبھی تیور ہیں صداؤں والے

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment