Thursday 13 December 2012

نظروں میں اس نے مجھ سے اشارات آج کی

نظروں میں اس نے مجھ سے اِشارات آج کی
کیا تھا یہ خواب کچھ نہ کھلی بات آج کی
میں نے تو بھر نظر تجھے دیکھا نہیں ابھی
رکھیو حساب میں نہ ملاقات آج کی
اک بات تلخ کہہ کے کیا زہر عشق سب
تُو نے ہماری خوب مدارات آج کی
یہ گفتگو کبھی بھی نہ آئی تھی درمیان
جو کچھ کہ تُو نے حرف و حکایات آج کی
دل میں یہی تھی میرے کہ دورِ شراب ہو
میں سچ کہوں یہ تُو نے کرامات آج کی
بلبل کے ناؤں پر بھی نہ آیا، بھلا ہوا
صیّاد تیری خالی گئی گھات آج کی
عیشِ شبِ وصال کو ہے صبحِ ہجر بھی
ٹھہری ہے یار کل پہ ملاقات آج کی
بھولے سے نام لے کے مِرا ہٹ پٹا گیا
پیاری لگی یہ مجھ کو تِری بات آج کی
مجھ پہ یہی قلق جو رہے گا تو یار بِن
کس طرح شب یہ گزرے گی ہیہات آج کی
اب تو جو کچھ ہوا، سو ہوا خیر رات ہے
قسمت میں دیکھنی تھی یہ آفات آج کی
لیکن مجھے تو پھر وہیں کل دیکھیو حسنؔ
گر خیر و عافیت سے کٹی رات آج کی

میر حسن دہلوی

No comments:

Post a Comment