Thursday 13 December 2012

خیال شب غم سے گھبرا رہے ہیں

خیالِ شبِ غم سے گھبرا رہے ہیں
ہمیں دن کو تارے نظر آرہے ہیں
دم وعظ کیسے مزے میں ہیں واعظ
بھرے جام کوثر کے چھلکا رہے ہیں
لگا دو ذرا ہاتھ اپنی گلے میں
جنازہ لیے دل کا ہم جارہے ہیں
یہ اُلجھے ہیں رندوں سے کیا شیخ صاحب
بڑھاپے میں کیوں ڈاڑھی رنگوا رہے ہیں
قیامت بچھی جاتی ہے ہر قدم پر
یہ کون آ رہا ہے، وہی آ رہے ہیں
دعا دے رہا ہوں یہ دیوانگی میں
چنیں پھول تنکے جو چنوا رہے ہیں
سیدھی کرتے ذرا مے کدے میں
عصا ٹیکتے کیا ریاضؔ آ رہے ہیں

ریاض خیر آبادی

No comments:

Post a Comment