Thursday 13 December 2012

حامی بھی نہ تھے منکر غالب بھی نہیں تھے

حامی بھی نہ تھے منکرِ غالب بھی نہیں تھے
ہم اہلِ تذبذب کسی جانب بھی نہیں تھے
اس بار بھی دُنیا نے ہدف ہم کو بنایا
اس بار تو ہم شہ کے مصاحب بھی نہیں تھے
بیچ آئے سرِ قریۂ زر، جوہرِ پندار
جو دام ملے ایسے مناسب بھی نہیں تھے
مٹّی کی محبت میں، ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اُتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے
لو دیتی ہوئی رات، سخن کرتا ہوا دن
سب اس کیلئے جس سے مخاطب بھی نہیں تھے

افتخار عارف

No comments:

Post a Comment