Saturday 29 September 2012

زندگی ڈر کے نہیں ہوتی بسر جانے دو

زندگی ڈر کے نہیں ہوتی بسر، جانے دو
جو گُزرنی ہے قیامت وہ گُزر جانے دو
دیکھتے جانا بدل جائے گا منظر سارا
یہ دُھواں سا تو ذرا نیچے اُتر جانے دو
پِھر چلے آئے ہو تم میری مسیحائی کو
پہلے کچھ رِستے ہوئے زخم تو بھر جانے دو

فکرِ انجام کر انجام سے پہلے پہلے

فکرِ انجام کر انجام سے پہلے پہلے 
دن تو تیرا ہے مگر شام سے پہلے پہلے
کیسے دم توڑ گئیں سینے میں رفتہ رفتہ
حسرتیں حسرتِ ناکام سے پہلے پہلے 
باعثِ فخر ہوا رہزن و قاتل ہونا
گھر اُجڑتے تھے اِس اِلزام سے پہلے پہلے

جو میں نے چاہا تھا ہو جائے وہ ہوا تو نہیں

جو میں نے چاہا تھا، ہو جائے، وہ ہُوا تو نہیں
مگر یہ درد مری ذات سے جُدا تو نہیں
وہ بے نیاز ہے تم سے تو چھوڑ دو اُس کو
وہ ایک شخص ہے آخر کوئی خُدا تو نہیں
اُسی کی روشنی شامل ہے میرے اشکوں میں
جو دِیپ اُس نے جلایا تھا وہ بُجھا تو نہیں

تیرے ابرووں کی حسیں کماں

تیرے ابرووں کی حسیں کماں، نظر آ رہی ہے فلک نشاں
نہ کرشمہ قوسِ قزح سے کم، نہ کشش ہلال کے خم سے کم
نہ ستا مجھے، نہ رُلا مجھے، نہیں اور تابِ جفا مجھے
کہ مری متاعِ شکیب ہے، تری کائناتِ سِتم سے کم
یہ کرم ہے کم، سرِ انجمن کہ پلائی اس نے مئے سخن
مجھے پاس اپنے بلا لیا، رہی بات میری تو کم سے کم

دنیا کی طرف لوٹ کے آنے کے نہیں ہم

دنیا کی طرف لوٹ کے آنے کے نہیں ہم
سچ بات یہ ہے تیرے زمانے کے نہیں ہم
آوارہ مزاجی بھی طبیعت نہیں اپنی
ویسے تو کسی طور ٹھکانے کے نہیں ہم
اب دیکھتے ہیں تیرگی جاتی ہے کہاں تک
اے تیرہ شبی شمع جلانے کے نہیں ہم

Monday 24 September 2012

راز یہ سب کو بتانے کی ضرورت کیا ہے

راز یہ سب کو بتانے کی ضرورت کیا ہے
دل سمجھتا ہے تِرے ذکر میں لذت کیا ہے
جس میں موتی کی جگہ ہاتھ میں مٹی آئے
اتنی گہرائی میں جانے کی ضرورت کیا ہے
اپنے حالات پہ مائل بہ کرم وہ بھی نہیں
ورنہ اس گردشِ دوراں کی حقیقت کیا ہے

گلہ تو آپ سے ہے اور بے سبب بھی نہیں

گِلہ تو آپ سے ہے اور بے سبب بھی نہیں
مگر ارادۂ اِظہار، زیرِ لب بھی نہیں
میں چاہتا ہوں کہ اپنی زباں سے کچھ نہ کہوں
میں صاف گو ہوں، مگر اتنا بے ادب بھی نہیں
جفا کی طرح، مجھے ترکِ دوستی بھی قبول
ملال جب بھی نہ تھا مجھ کو، اور اب بھی نہیں

زندگی میں لگ چکا تھا غم کا سرمایہ بہت

زندگی میں لگ چکا تھا غم کا سرمایہ بہت
اِس لیے شاید گنوایا ہم نے کم، پایا بہت
راندۂ ہر فصلِ گُل ہم کب نہ تھے، جو اب ہوئے
سنتے ہیں یاروں کو یہ موسم بھی راس آیا بہت
وہ قریب آنا بھی چاہے اور گریزاں بھی رہے
اس کا یہ پِندارِ محبوبی مجھے بھایا بہت

Sunday 16 September 2012

گرتے گرتے ایک طوفان قیامت زا ہوا

گِرتے گِرتے ایک طُوفانِ قیامت زا ہوا
وہ جو اِک آنسو مژہ پر تھا مرے ٹھہرا ہوا
اب تو آنکھیں کھول او افتادۂ کُوئے حبیب
جھانکتا ہے کوئی دروازے سے شرمایا ہوا
ذرے ذرے میں تھی ساری، ایک موجِ انقلاب
منظرِ فطرت کو میں دیکھا کِیا، سہما ہوا

محبت میں جگر گزرے ہیں ایسے بھی مقام اکثر

محبت میں جگر گزرے ہیں ایسے بھی مقام اکثر
کہ خود لینا پڑا ہے اپنے دل سے انتقام اکثر
کہاں حسنِ تمام یارو تکلیفِ کرم کوشی
بدل دیتی ہے دنیا اِک نگاہِ ناتمام اکثر
مِری رِندی بھی کیا رِندی، مِری مستی بھی کیا مستی
مِری توبہ بھی بن جاتی ہے مئے خانہ بہ جام اکثر

کام آخر جذبۂ بے اختیار آ ہی گیا

کام آخر جذبۂ بے اختیار آ ہی گیا
دل کچھ اس صورت سے تڑپا ان کو پیار آ ہی گیا
ہائے یہ حسنِ تصور کا فریبِ رنگ و بُو
میں یہ سمجھا، جیسے وہ جانِ بہار آ ہی گیا
ہاں، سزا دے اے خدائے عشق! اے توفیقِ غم
پھر زبانِ بے ادب پر ذکرِ یار آ ہی گیا

غم ہجراں کی ترے پاس دوا ہے کہ نہیں

غمِ ہِجراں کی ترے پاس دوا ہے کہ نہیں
جاں بلب ہے ترا بیمار، سنا ہے کہ نہیں
وہ جو آیا تھا، تو دل لے کے گیا ہے کہ نہیں
جھانک لے سینے میں کمبخت ذرا، ہے کہ نہیں
مخمصے میں تری آہٹ نے مجھے ڈال دیا
یہ مرے دل کے دھڑکنے کی صدا ہے کہ نہیں

Saturday 15 September 2012

آوارہ; اے غمِ دل کیا کروں، اے وحشت دل کیا کروں

آوارہ

شہر کی رات اور میں ناشاد و ناکارہ پھروں
جگمگاتی جاگتی سڑکوں پہ آوارہ پھروں
غیر کی بستی ہے کب تلک دربدر مارا پھروں
اے غمِ دل کیا کروں، اے وحشتِ دل کیا کروں

جھلملاتے قمقموں کی راہ میں زنجیر سی
رات کے ہاتھوں میں دن کی موہنی تصویر سی

سورج کا ہر اِک شے سے سروکار الگ ہے

سورج کا ہر اِک شے سے سروکار الگ ہے
ہے رات الگ ، صبح کا اخبار الگ ہے
کچھ خون کی سرخی سی چمکتی ہے زمین پر
سَر دھڑ سے الگ، ہاتھ سے تلوار الگ ہے
سنتے تھے بہت شور مسیحائی کا، جس کی
اب وقت پڑا ہے تو وہ بیمار الگ ہے

دل تباہ نے اک تازہ زندگی پائی

دلِ تباہ نے اِک تازہ زندگی پائی
تمہیں چراغ مِلا، ہم نے روشنی پائی
ترے خیال سے فُرصت اگر کبھی پائی
بھری بھری سی یہ دُنیا، تہی تہی پائی
سِتم بھی تیرے تغافُل کو سازگار آیا
وفا کی داد بھی ہم نے کبھی کبھی پائی

Sunday 9 September 2012

تم کیا تھے

تم کیا تھے

تم کیا تھے
جب یہ جانا
تو دیر بہت ہو چکی تھی
بِنا دیکھے، بِنا جانے
ہم نے تو تَن مَن وار دیا

میرے پاس تھا ہی کیا

میرے پاس تھا ہی کیا؟

بہت خوبصورت جذبے لے کر چلا تھا میں
بڑے معصوم اور سچے تھے
اور میرے پاس تھا ہی کیا
جذبوں کی سچائی کے علاوہ
مگر بازارِ وفا میں

اب کوئی تاج محل نہیں بنے گا

اب کوئی تاج محل نہیں بنے گا

اب کوئی تاج محل نہیں بنے گا
ممتازوں نے پیدا ہونا چھوڑ دیا
شاہ جہان سے گزر گئے
اب معیارات بھی زمانے کے بدل گئے
شہنشاہوں کی جگہ جمہوریت نے سہرے باندھ لیے

Thursday 6 September 2012

شب خانہ رقیب میں تا صبح سو چکے

شب خانۂ رقیب میں تا صبح سو چکے
اب فائدہ مکرنے سے ہم دیکھ تو چکے
کہتے ہو جنسِ دل کو ہماری بغل میں دیکھ
بولو نہ بیچتے ہو تو قیمت کہو چکے
قیمت ہے ایک بوسہ دمِ نقد ایسے جی
تم چاہتے ہو مفت میں کچھ لو نہ دو چکے

Tuesday 4 September 2012

میں ہوں انشا انشا انشا

میں ہوں انشاؔ، انشاؔ، انشاؔ

کیوں جانی پہچانی گئی ہو
اِنشاؔ جی کو جان گئی ہو
جس سے شام سویرے آ کر
فون کی گھنٹی پر بُلوا کر
کیا کیا بات کیا کرتی تھیں
کیا کیا عہد لیا کرتی تھیں

عجب اک سانحہ سا ہو گیا ہے

عجب اِک سانحہ سا ہو گیا ہے

شبوں کو نیند آتی ہی نہیں ہے
طبیعت چین پاتی ہی نہیں ہے
بہت روئے اب آنسو ہیں گراں یاب
کہاں ڈُوبا ہے جا کے دل کا مہتاب
ستارے! صُبحِ خنداں کے ستارے
بھلا اِتنی بھی جلدی کیا ہے پیارے

سب نے انسان کو معبود بنا رکھا ہے

سب نے اِنسان کو معبُود بنا رکھا ہے
اور سب کہتے ہیں اِنسان میں کیا رکھا ہے
یُوں بظاہر تو دِیا میں نے بُجھا رکھا ہے
درد نے دل میں الاؤ سا لگا رکھا ہے
منصفو! کُچھ تو کہو، کیوں سرِ بازارِ حیات
مُجھ کو اِحساس نے سُولی پہ چڑھا رکھا ہے

عشق بے دم ہے تو فردوس وفا مت ڈھونڈو

عِشق بے دم ہے تو فردوسِ وفا مت ڈھونڈو
ریت پھانکی ہے تو گندم کا مزا مت ڈھونڈو
سر سے پا تک ہوں جب اُتری ہوئی سرسوں کی رُتیں
پِھر کِسی ہاتھ پہ نیرنگِ حِنا مت ڈھونڈو
دھجّیاں اپنی حمیّت کی، چُھپاؤ گے کہاں
سر سے نوچی ہوئی، بیٹی کی رِدا مت ڈھونڈو

اب تو ہیں اس شوق گستاخانہ سے بیگانہ ہم

اب تو ہیں اس شوقِ گستاخانہ سے بیگانہ ہم
بس نظر سے چُوم لیتے ہیں لبِ پیمانہ ہم
رات کو تاروں سے، دن کو ذرّہ ہائے خاک سے
کون ہے، جس سے نہیں سُنتے تیرا افسانہ ہم
ضبط کی حد سے اگر شوقِ فراواں بڑھ چلا
آنسوؤں سے بھر کے پی جائیں گے اِک پیمانہ ہم

گھبرا کے شب ہجر کی بے کیف سحر میں

گھبرا کے شبِ ہجر کی بے کیف سحر میں
تارے اُتر آئے ہیں میرے دیدۂ تر میں
وہ آڑ میں پردے کے، تیری نِیم نِگاہی
ٹُوٹے ہوئے اِک تِیر کا ٹُکڑا ہے جِگر میں
اب وقت کے قدموں میں تحیّر کی ہے زنجِیر
میں تیری نظر میں ہوں، جہاں میری نظر میں

کہانیاں غم ہجراں کی میں نے کس سے کہیں

کہانیاں غمِ ہجراں کی، میں نے کِس سے کہیں
میرے قریب وہ بیٹھے ہوئے بھی ہیں، کہ نہیں
تیرے کرم کا سہارا تو تھا اُمیدوں کو
مگر یہ چِڑیاں شکستہ پروں سے اُڑ نہ سکیں
نہیں تو خاک ہیں، یہ قوّتِ حیات ہے کیا
وہ اس جہان میں پوشیدہ ہیں کہیں نہ کہیں

Saturday 1 September 2012

شعر کسی کے ہجر میں کہنا حرف وصال کسی سے

شعر کسی کے ہِجر میں کہنا حرفِ وصال کسی سے
ہم بھی کیا ہیں دھیان کسی کا اور سوال کسی سے
ساری متاعِ ہستی اپنی خواب و خیال تو ہیں
وہ بھی خواب کسی سے مانگے اور خیال کسی سے
ایسے سادہ دل لوگوں کی چارہ گری کیسے ہو
درد کا درماں اور کوئی ہو، کہنا حال کسی سے

کب ہم نے کہا تھا ہمیں دستار و قبا دو

کب ہم نے کہا تھا ہمیں دستار و قبا دو
ہم لوگ نَوا گر ہیں، ہمیں اِذنِ نَوا دو
ہم آئینے لائے ہیں سرِ کُوئے رقِیباں
اے سنگ فروشو! یہی اِلزام لگا دو
لگتا ہے کہ میلہ سا لگا ہے سرِ مقتل
اے دل زدگاں! بازوئے قاتل کو دُعا دو

فاصلے اتنے بڑھے ہجر میں آزار کے ساتھ

فاصلے اتنے بڑھے ہِجر میں آزار کے ساتھ
اب تو وہ بات بھی کرتے نہیں غمخوار کے ساتھ
اب تو ہم گھر سے نِکلتے ہیں تو رکھ دیتے ہیں
طاق پہ عزتِ سادات بھی دستار کے ساتھ
اِک تو تم خواب لیے پِھرتے ہو گلیوں گلیوں
اس پہ تکرار بھی کرتے ہو خریدار کے ساتھ