Wednesday 28 November 2012

سیاہ خانۂ امید رائگاں سے نکل

سیاہ خانۂ امیدِ رائیگاں سے نِکل
کھلی فضا میں ذرا آ، غبارِ جاں سے نکل
عجیب بِھیڑ یہاں جمع ہے ، یہاں سے نکل
کہیں بھی چل مگر اِس شہرِ بے اماں سے نکل
اِک اور راہ، اُدھر دیکھ ، جا رہی ہے وہیں
یہ لوگ آتے رہیں گے، تُو درمیاں سے نکل

آئینہ لے لے صبا پھر آئی

آئینہ لے لے صبا پھر آئی
بجھتی آنکھوں میں ضیا پھر آئی
تازہ رس لمحوں کی خوشبو لے کر
گُل زمینوں کی ہوا پھر آئی
سرمئ دیس کے سپنے لے کر
شبنمِ زمزمہ پا پھر آئی

کبھی جب مدتوں کے بعد اس کا سامنا ہو گا

کبھی جب مُدّتوں کے بعد اُس کا سامنا ہو گا
سوائے پاس آدابِ تکلّف اور کیا ہو گا؟
صلیبِ وقت پر میں نے پُکارا تھا محبت کو
میری آواز جس نے بھی سُنی ہو گی، ہنسا ہو گا
ابھی اِک شورِ ہاؤ ہو سُنا ہے ساربانوں نے
وہ پاگل قافلے کے ضِد میں پیچھے رہ گیا ہو گا

وہ سامنے ہوں مرے اور نظر جھکی نہ رہے

 وہ سامنے ہوں مِرے اور نظر جھکی نہ رہے

متاع زیست لٹا کر کوئی کمی نہ رہے

دئیے جلائے ہیں میں نے کھلے دریچوں پر

اے تند و تیز ہوا! تجھ کو برہمی نہ رہے

بتاؤ ایسا بھی منظر نظر سے گزرا ہے

چراغ جلتے رہیں اور روشنی نہ رہے

Tuesday 27 November 2012

کب پتا یار کو ہم اپنے لکھا کرتے ہیں

کب پتا یار کو ہم اپنے لکھا کرتے ہیں
جانے ہم خُود میں کہ ناخُود میں رہا کرتے ہیں
اب تم شہر کے آداب سمجھ لو جانی
جو مِلا ہی نہیں کرتے وہ مِلا کرتے ہیں
جہلا علم کی تعظیم میں برباد گئے
جہل کا عیش جو ہے وہ علما کرتے ہیں

پا بہ زنجیر کرے طوق بنے دار بنے

پا بہ زنجیر کرے، طوق بنے، دار بنے 
حرفِ حق جب بھی کہو جان کا آزار بنے 
مُسکراتا ہے اُسے دیکھ کے ہر اہلِ ہوس 
جب کوئی لفظ گریباں کا مرے، تار بنے 
تھا نہ یاروں پہ کچھ ایسا بھی بھروسا لیکن 
اَب کے تو لوگ سرِ بزم یہ اغیار بنے 

دشت خواہش میں کہیں سے تو صدا دے کوئی

دشتِ خواہش میں کہیں سے تو صدا دے کوئی 
میں کہاں ہوں، مجھے اِتنا ہی بتا دے کوئی 
دل میں جو کچھ ہے زباں تک نہ وہ آنے پائے 
کاش ہونٹوں پہ مرے مُہر لگا دے کوئی
فصل ساری ہے تمنّاؤں کی یکجا میری 
میرا کھلیان نہ بے درد جلا دے کوئی 

اِک بار تو ایسی بھی جسارت کبھی کر جا

اِک بار تو ایسی بھی جسارت کبھی کر جا 
آ، اور مری تشنگئ جاں میں اُتر جا 
ویرانئ دل پر کبھی اتنا تو کرم کر 
اِس راہگزر سے نم موسم سا گُزر جا 
طُرفہ ہیں بہت میرے دل و جاں کی پھواریں 
اِس بزم میں آ، اور مثالِ گُلِ تر جا 

وہ جس کے نین نقش اپنے ذہن میں اتر گئے

وہ جس کے نین نقش اپنے ذہن میں اُتر گئے 
ہم اِک اُسی کی جستجو لئے، نگر نگر گئے 
خیال قُرب اُسی کا سر پہ ابر سا جُھکا رہا 
میانِ دشتِ روزگار، ہم جِدھر جِدھر گئے 
تھیں اُس کے مُڑ کے دیکھنے میں بھی عجب مسافتیں 
حدوں سے شب کی ہم نکل کے جانبِ سحر گئے 

Sunday 18 November 2012

اب ہے خوشی خوشی میں نہ غم ہے ملال میں

اب ہے خوشی خوشی میں نہ غم ہے ملال میں
دنیا سے کھو گیا ہوں تمہارے خیال میں
مجھ کو نہ اپنا ہوش نہ دنیا کا ہوش ہے
مست ہو کے بیٹھا ہوں میں تمہارے خیال میں
تاروں سے پوچھ لو میری رودادِ زندگی
راتوں کو جاگتا ہوں تمہارے خیال میں

اس کرب مسلسل سے گزر کیوں نہیں جاتا

اس کربِ مُسلسل سے گُزر کیوں نہیں جاتا
احساس میرا زندہ ہے، مر کیوں نہیں جاتا
گُلزارِ تمنّا سے مہک کیوں نہیں اُٹھتی
یہ موسمِ بے برگ و ثمر کیوں نہیں جاتا
خنجر تھا اگر میں، تو میرے وار کہاں ہیں
میں وقت کے سینے میں اُتر کیوں نہیں جاتا

جاگیں گے کسی روز تو اس خواب طرب سے

جاگیں گے کسی روز تو اس خوابِ طرب سے
ہم پُھول ہی چُنتے رہے باغیچۂ شب سے
پھر ایک سفر اور وہی حرفِ رفاقت
سمجھے تھے گزر آئے ہیں ہم تیری طلب سے
خُوش دل ہے اگر کوئی تو کیا اس کا یہاں کام
یہ بارگہِ غم ہے، قدم رکھو ادب سے

آیا نہ ہو گا اس طرح حسن و شباب ریت پر

عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ بر امام عالی مقام

آیا نہ ہو گا اس طرح حُسن و شباب ریت پر
گلشنِ فاطمہؓ کے تھے سارے گلاب ریت پر
آلِ بتولؓ کے سوا کوئی نہیں کھلا سکا
قطرۂ آب کے بغیر اتنے گلاب ریت پر
عشق میں کیا بچائیے، عشق میں کیا لٹائیے
آلِ نبیؐ نے لکھ دیا سارا نصاب ریت پر

کیسے کروں بیان میں رتبہ حسین کا

عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ بر امام حسین

کیسے کروں بیان میں رُتبہ حسین کا
ناناؐ کے دِیں کے واسطے صدقہ حسین کا
غلبہ ہے آج پھر سے، غاصب یزید کا
مقصود پھر ہے آج وہ جذبہ حسین کا
ظالم کے ظلم و جبر پہ تڑپی تھی سرزمیں
رویا تھا کتنے درد سے کوچہ حسین کا

بقائے عظمت انسان ہے پیام حسین

بقائے عظمتِ اِنسان ہے پیامِ حسینؓ 
شعور و فہم سے ہے ماورأ مقامِ حسینؓ
دلیلِ عظمتِ آدمؑ، وقارِ عیسیٰؑ بھی
سِناں کی نوک پہ وہ گونجتا کلامِ حسینؓ 
حقیر لگتے ہیں مجھ کو، سکندر و دارا
پکارتا ہے کوئی جب مجھے غلامِ حسینؓ 
فلک ستارے زمیں پھول اور میری آنکھیں 
ہر ایک شے کو جہاں میں ہے احترامِ حسینؓ
قسم ہے خاکِ مدینہ کی مجھ کو اے ساغرؔ
لبِ حیات پہ روشن رہے گا نامِ حسینؓ

ساغرؔ شہزاد