Friday 1 March 2013

ہم کریں بات دلیلوں سے تو رد ہوتی ہے

ہم کریں بات دلیلوں سے تو رد ہوتی ہے
اُسکے ہونٹوں کی خموشی بھی سند ہوتی ہے
سانس لیتے ہوئے اِنساں بھی ہے لاشوں کی طرح
اب دھڑکتے ہوئے دل کی بھی لحد ہوتی ہے
اپنی آواز کے پتّھر بھی نہ اُس تک پہنچے
اسکی آنکھوں کے اشارے میں بھی زَد ہوتی ہے
جسکی گردن میں ہے پھندا وہی انسان بڑا
سُولیوں سے یہاں پیمائشِ قد ہوتی ہے
شعبدہ گر بھی پہنتے ہے خطیبوں کا لباس
بولتا جہل ہے، بدنام خِرد ہوتی ہے
کچھ نہ کہنے سے بھی چِھن جاتا ہے اعزازِ سخن
ظلم سہنے سے بھی ظالم کی مدد ہوتی ہے

مظفر وارثی

No comments:

Post a Comment