Sunday 31 March 2013

زخم یادوں کے نہیں مٹتے ہیں آسانی سے

زخم یادوں کے نہیں مٹتے ہیں آسانی سے
داغ دھلتے ہیں کہاں بہتے ہوئے پانی سے
دیکھتی جاتی ہوں میلے کا تماشا چپ چاپ
کیا پتہ بول پڑے آنکھ ہی ویرانی سے
روشنی کا یہ خزانہ مری آنکھیں ہی نہ ہوں
شمع تو میں نے بجھا دی ہے پریشانی سے
میرے چہرے میں جھلکتا ہے کسی اور کا عکس
آئینہ دیکھ رہا ہے مجھے حیرانی سے
باندھ لی میں نے دعا رختِ سفر میں نیناں
ڈر جو لگتا ہے مجھے بے سر و سامانی سے

فرزانہ نیناں

No comments:

Post a Comment