Thursday 28 March 2013

مشعلیں ساتھ لئے جاتے ہو جاتے جاتے

مشعلیں ساتھ لیے جاتے ہو، جاتے، جاتے
روشنی کچھ مِرے رَستے میں گراتے جاتے
بستیاں خواب کی پہلے جو بسائی گئی تھیں
ہم نے دیکھی ہیں اسی راہ پر آتے جاتے
ساری امیدیں ہی کاغذ کی بنی کشتیاں ہیں
جان پاتے تو نہ پانی میں بہاتے جاتے
کوئی خاموشی صدا دیتی رہی پیچھے سے
رُکتے جاتے تھے ہم، آواز ملاتے جاتے
جسم جلنے لگا اِک خواب کی لَو سے ورنہ
اس اندھیرے سے تعلق کو نِبھاتے جاتے
خود فراموشئ اُلفت سے نکل پاتے تو پھر
اپنے حصے کا کوئی رنج اٹھاتے جاتے
کیا کِیا جائے ہمیں وقت نے مہلت ہی نہ دی
ورنہ سورج کو چراغ اپنا دکھاتے جاتے

ثمینہ راجا

No comments:

Post a Comment