Tuesday 26 March 2013

ہم مسافر یونہی مصروف سفر جائیں‌ گے

ہم مسافر یونہی مصروفِ سفر جائیں‌ گے
بے نشاں ہو گئے جب شہر تو گھر جائیں گے
کس قدر ہو گا یہاں مہر و وفا کا ماتم
ہم تری یاد سے جس روز اتر جائیں گے
جوہری بند کئے جاتے ہیں بازارِ سخن
ہم کسے بیچنے الماس و گُہر جائیں گے
نعمتِ زیست کا یہ قرض چُکے گا کیسے
لاکھ گھبرا کے یہ کہتے رہیں، مر جائیں ‌گے
شاید اپنا بھی کوئی بیت حُدی خواں بن کر
ساتھ جائے گا، مرے یار جدھر جائیں گے
فیضؔ آتے ہیں رہِ عشق میں جو سخت مقام
آنے والوں سے کہو ہم تو گزر جائیں گے

فیض احمد فیض

No comments:

Post a Comment