Friday 29 March 2013

وہ زود رنج منانے بھی تو نہیں دیتا

وہ زُود رنج منانے بھی تو نہیں دیتا
جو دل پہ گزری، بتانے بھی تو نہیں دیتا
گو اُس نے خار بچھائے نہیں ہیں رَستے میں
مگر، وہ اُن کو ہٹانے بھی تو نہیں دیتا
یہ زخم اُس نے لگائے نہیں مگر سوچو
وہ ان کے داغ مٹانے بھی تو نہیں دیتا
دھیان اُس کا ہٹے بھی تو کس طرح سے ہٹے
وہ اپنی یاد بھلانے بھی تو نہیں دیتا
پیام آئے کبھی اُس کا یہ نہیں ممکن
دل اُسکے شہر کو جانے بھی تو نہیں دیتا
وہ تیرگی کا مخالف بنا تو ہے، لیکن
چراغ گھر میں جلانے بھی تو نہیں دیتا
اُسی کی ذات کا ہر پَل طواف کرتے ہیں
دل ہم کو اور ٹھکانے بھی تو نہیں دیتا
جو ہم پہ شِرک کے فتوے لگا رہا ہے بتولؔ
وہ دَر سے سر کو اُٹھانے بھی تو نہیں دیتا

فاخرہ بتول

No comments:

Post a Comment