Friday 29 March 2013

بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی

بات کرنی مجھے مشکِل کبھی ایسی تو نہ تھی
جیسی اب ہے تِری محفِل کبھی ایسی تو نہ تھی
لے گیا چھین کے کون آج تِرا صبر و قرار
بے قراری تجھے اے دِل کبھی ایسی تو نہ تھی
اس کی آنکھوں نے خدا جانے کِیا کیا جادو
کہ طبیعت مری مائِل کبھی ایسی تو نہ تھی
عکسِ رخسار نے کس کے ہے تجھے چمکایا
تاب تجھ میں مہِ کامِل کبھی ایسی تو نہ تھی
اب کی جو راہِ محبت میں اٹھائی تکلیف
سخت ہوتی ہمیں منزِل کبھی ایسی تو نہ تھی
پائے خُوباں کوئی زنداں میں نیا ہے مجنوں
آتی آوازِ سلاسِل کبھی ایسی تو نہ تھی
نِگَہِ یار کو اب کیوں ہے تغافل اے دل
وہ ترے حال سے غافِل کبھی ایسی تو نہ تھی
چشمِ قاتل مری دشمن تھی ہمیشہ لیکن
جیسی اب ہو گئی قاتِل کبھی ایسی تو نہ تھی
کیا سبب تو جو بگڑتا ہے ظفرؔ سے ہر بار
خُو تری حُورِ شمائِل کبھی ایسی تو نہ تھی

 بہادر شاہ ظفر

No comments:

Post a Comment