Thursday 28 March 2013

ذرا سی بات پہ دل سے بگاڑ آیا ہوں

ذرا سی بات پہ دل سے بگاڑ آیا ہوں
بنا بنایا ہوا گھر اجاڑ آیا ہوں
وہ انتقام کی آتش تھی میرے سینے میں
ملا نہ کوئی تو خود کو پچھاڑ آیا ہوں
میں اس جہان کی قسمت بدلنے نکلا تھا
اور اپنے ہاتھ کا لکھا ہی پھاڑ آیا ہوں
اب اپنے دوسرے پھیرے کے انتظار میں ہوں
جہاں جہاں مِرے دشمن ہیں تاڑ آیا ہوں
میں اُس گلی میں گیا اور دل و نگاہ سمیت
جمالؔ جیب میں جو کچھ تھا جھاڑ آیا ہوں

جمال احسانی

No comments:

Post a Comment