Sunday 31 March 2013

اس نے نرم کلیوں کو روند روند پاؤں سے

اس نے نرم کلیوں کو روند روند پاؤں سے
تازگی بہاروں کی چھین لی اداؤں سے
بھیج اپنے لہجے کی نرم گرم کچھ تپش
برف کب پگھلتی ہے، چاند کی شعاعوں سے
پاؤں میں خیالوں کے، راستے بچھائے ہیں
آج ہی چرانے ہیں، پھول اس کے گاؤں سے
دور دور رہتی ہے ایک غمزدہ لڑکی
ہجرتوں کی راہوں سے، وصل کی سراؤں سے
تیرے جسم کی خوشبو، شام کی اداسی میں
موتیے کے پھولوں نے چھین لی ہواؤں سے
پیار کی کہانی میں سچ اگر ملے نیناںؔ
عمر باندھ لیتی ہیں لڑکیاں وفاؤں سے

فرزانہ نیناں

No comments:

Post a Comment